پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) منصوبے کے لیے نظر ثانی شدہ فنڈز بھی کم پڑگئے

پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) منصوبے کے لیے نظر ثانی شدہ فنڈز بھی کم پڑگئے

 پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) منصوبے کے لیے نظر ثانی شدہ فنڈز بھی کم پڑگئے۔

 جیو نیوز کو ملنے والی دستاویز کے مطابق پشاور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی نے 4ارب 28 کروڑ روپے کے اضافی فنڈز کے لیے حکومت کو خط لکھ دیا ہے اور منصوبے کے ٹیم لیڈر نے پی سی ون بھی تیار کر لیا ہے۔

دستاویز کے مطابق اضافی ڈیڑھ ارب روپے بس اسٹیشن نمبر 19 اور 31 کے درمیان پر خرچ ہوں گے جب کہ بس اسٹیشن نمبر 1 سے 8 تک 98 کروڑ روپے اضافی خرچ ہوں گے ، اس کےعلاوہ ٹرانز پشاور کے دفتر، بس ڈپو اور پارک کے لیے بھی اضافی ڈیڑھ ارب روپے مانگے گئے ہیں۔ 

کنسلٹنٹ کی سپرویجن پر بھی ایک ارب 35 کروڑ روپے کی اضافی لاگت آئے گی۔ 

شوکت یوسفزئی کی جیونیوز سے گفتگو

جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے صوبائی وزیراطلاعات شوکت یوسفزئی نے بتایا کہ بی آر ٹی منصوبے کی لاگت میں 4 ارب روپے سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے اور مجموعی لاگت 70 ارب روپے سے زیادہ ہے، بی آر ٹی کے لیے باہر سے بھی اشیاء منگوائی گئی ہیں جو مہنگی ہیں۔  

انہوں نے مزید بتایا کہ اضافی رقم صوبائی حکومت فراہم کرے گی جس کی منظوری ایکنک سے لی جائے گی۔

شوکت یوسفزئی کا کہنا تھاکہ بی آرٹی اپریل میں مکمل ہو گا جس کی تکیمل کا کریڈٹ وزیر اعلیٰ محمود خان کو جاتا ہے۔

خیال رہے کہ 5 دسمبر 2019 کو پشاور ہائیکورٹ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو 45 روز کے اندر پشاور بی آر ٹی انکوائری مکمل کرنے کا حکم دیا تھا۔

خیبرپختونخوا حکومت نے ہائیکورٹ کے حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا جس کے بعد گزشتہ روز عدالت عظمیٰ نے ایف آئی اے کو تحقیقات سے روک دیا ہے۔

منصوبے کی تکمیل کی مدت 6 ماہ تھی،اب تک کیوں مکمل نہیں ہوا؟

سپریم کورٹ میں دوران سماعت جسٹس مظہر عالم خیل نے صوبائی حکومت کے وکیل سے استفسار کیا کہ منصوبہ 2017 میں شروع ہوا، تکمیل کی مدت 6 ماہ تھی، اب تک کیوں مکمل نہیں ہوا؟

وکیل کے پی کے نے مؤقف اختیار کیا کہ منصوبے کے ڈیزائن میں متعدد بار تبدیلی کرنا پڑی جس سے تاخیر ہوئی، ہائیکورٹ نے ریکارڈ دیکھے بغیر فیصلہ دیا اور جو فیصلہ دیا وہ درخواست گزار نے استدعا کی ہی نہیں تھی۔

واضح  رہے کہ پشاور میں ٹرانسپورٹ کا منصوبہ بی آر ٹی تحریک انصاف کے گزشتہ دورِ حکومت میں سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک کے دور میں شروع ہوا جو کئی تاریخوں کے باوجود تاحال مکمل نہیں ہوسکا ہے۔

اکتوبر 2017 میں شروع ہونے والے اس منصوبے کو کے پی کے حکومت نے 6 ماہ کے اندر مکمل کرنے کا دعویٰ کیا تھا جب کہ منصوبے پر لاگت کا تخمینہ 49 ارب روپے لگایا گیا جو اب 60 ارب روپے سے بھی تجاوز کرچکا ہے

Share
Skip to toolbar