وسیم اکرم اور وقار یونس کی کپتانی کی لڑائی میں سلیم ملک نے ٹیم کو کیسے سنمبالا –

وسیم اکرم اور وقار یونس کی کپتانی کی لڑائی میں سلیم ملک نے ٹیم کو کیسے سنمبالا –

 سلیم ملک کا کہنا تھا کہ ١٩٩٢ کے بعد وسیم اور وقار کے درمیان کپتانی کی جنگ چل رہی تھی اور اس بات کا سب کو پتہ تھا – تمام کھلاڑی اس سے با خبر تھے اور پوری ٹیم کے اندر 2 گروپ بن چکے تھے اور پوری ٹیم میں کسی قسم کی کوئی یک سوئی نہیں تھی اور کوئی اتحاد نہیں تھا

انھوں نے کہا کہ اسی دوران چیئرمین اور مینجمنٹ نے مجھے بلا لیا اور مجھ سے کہا کہ میں کپتانی کے لیے منتخب کر لیا گیا ہوں – میں نے سارے معاملات ان کے ساتھ بھی شیئر کیے مگر انھوں نے کہا کہ تم نے اس سارے معاملے کو حل کرنا ہے – سلیم ملک نے کہا کہ ایک بات ضرور ہے کہ یہ دونوں وسیم اکرم اور وقار یونس میرے جونیئر تھے اور اس وجہ سے میری عزت کرتے تھے اور سامنے کوئی فضول بات بھی نہیں کرتے تھے

سلیم ملک نے مزید کہا کہ جب میں کپتان بنا تو پھر ان دونوں نے میرے سے بات چیت ختم کر دی اور یہ صورتحال تھی کہ میں اکیلا ایک طرف ہوتا تھا اور باقی ساری ٹیم آدھی وسیم کے ساتھ ہوتی تھی اور باقی آدھی ٹیم وقار یونس کے ساتھ ہوتی تھی اور یہ بہت ہی خطرناک تھا کیونکہ اگر یہ معاملہ ایسے ہی رہتا تو پھر ہم کسی بھی ہلکی سے ہلکی ٹیم سے بھی ہار سکتے تھے -لہذا میرے لیے یہ صورتحال بہت پریشان کن تھی

سلیم ملک نہ کہا کہ پھر نیوزی لینڈ کا ایک دورہ آ گیا اور ساری ٹیم نیوزی لینڈ چلی گئی مگر حالات ویسے کے ویسے ہی تھے ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی – سلیم ملک نے پھر کہا کہ جس دن میچ تھا میں نے وسیم اکرم کو جا کر گیند دی اور اس سے کہا کہ مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ تم آوٹ کرتے ہو یا نہیں مگر وقار یونس تو دوسری سائیڈ سے ضرور پانچ کھلاڑی آوٹ کریگا اور اس طرح وہ تم سے بازی لے جائے گا

سلیم ملک کہتے ہیں کہ میں پھر یہی بات وقار یونس کو گیند دیتے ہوئے کہی کہ تم آوٹ کرو یا نہ کرو مگر وسیم اکرم تو دوسری سائیڈ سے پانچ آوٹ ضرور کریگا – لہذا سلیم ملک کہتے ہیں میں اس طرح سے ان دونوں کو بڑی مشکل سے چلایا اور آپ آج بھی ریکارڈ نکال کر دیکھ سکتے ہیں کہ پاکستان نے اس وقت نیوزی لینڈ بہت بری شکشت سسے دوچار کیا تھا اور یہ صرف سلیم ملک کی عقل مندی کا نتیجہ تھا

Share
Skip to toolbar